اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں نعمت
اسلام سے نوازا اور ایک ایسی شریعت دی جس میں
صحیح عقائد، عمدہ اخلاق اور کردارکی پاکیزگی کی اعلیٰ
تعلیم ہے اور شرک وبدعت و بداخلاقی اور بے حیائی سے
ممانعت پوری تاکید کے ساتھ موجود ہے۔ اور ہر ہر قدم پر علم وعمل
اور قانون کے ذریعہ عفت وپاک دامنی کو فروغ دیا گیا اور
بے حیائی، زناکاری وغیرہ پر پابندی عائد کی
گئی ہے۔
پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری
سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ
داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں
کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک
صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ
خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچاس سال سے غیروں
کی حیاسوزی کی تحریک؛ بلکہ یلغار سے ہمارا
معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس اور حد درجہ ماتم کی چیز
یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اورفحاشی کا خاتمہ کرنے اور اس پر روک لگانے کے
بجائے بعض مسلم دانشوران اس کوشش میں ہیں کہ بے حجابی کو جواز
کا درجہ دے دیا جائے؛ بلکہ بعض نے تو چہرہ کے حجاب کو غیر ضروری
قرار دے دیا ہے اور اس بات کا دعوی ہی نہیں؛ بلکہ دعوت دینی
شروع کردی ہے کہ چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کو کھلا رکھا
جائے۔
اسی پس منظر قرآن وحدیث کی
روشنی میں چہرہ کے حجاب پر چند دلائل پیش خدمت ہیں:
(۱) قرآن مجید نے مردوں اور عورتوں کو مشترکہ حکم : یَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ
اور یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُن(سورہٴ
النور ۳۰۔۳۱) کے الفاظ میں دیا ہے، اور بار بار قرآن کے بہت سے
مقامات اور احادیث میں بہ کثرت یہ حکم وارد ہوا ہے، یہ سب
کو معلوم ہے کہ شرم گاہ کی حفاظت چہرہ کے پردہ سے ہی ہوتی ہے۔
اور عصمت دری کی ابتداء چہرہ کی بے پردگی سے ہوکر زنا کی
حد تک جا پہنچتی ہے۔ چنانچہ مشہور حدیث میں اس کی
طرف اشارہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے : اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا النَّظْرُ اور مزیدفرمایا کہ وَالْفَرجُ یُصَدِّقُ
ذَلکَ اَوْ یُکَذِّبُہ (صحیح بخاری) آنکھ بھی
زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا بد نگاہی ہے اور شرم گاہ اس کی
تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔
(۲) وَلْیَضْرِبَن بِخُمُرِھِنَّ
عَلَی جُیُوبِھِنَّ
(سورہٴ النور ۳۱) اور عورتوں کو چاہیے
کہ اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں، یعنی دوپٹہ سروں
سے چہرہ اور گلے کو ڈھانکتے ہوئے سینہ کو بھی اچھی طرح چھپائیں
اور اگر صرف یہ مراد لیا جائے کہ سینوں پر ہی ڈالے رہیں
تو بھی ضمناً چہرہ کا پردہ بدرجہٴ اولیٰ ثابت ہوگا؛ کیونکہ
چہرہ ہی اصل جمال اور فتنہ کا سامان ہے ، حسن وقبح کا معیار چہرہ ہی
ہے،لہٰذا چہرہ کا حجاب بدرجہٴ اولیٰ ثابت ہوا۔
(۳) غَضِّ بَصَر والی آیت میں دو جگہ اِلَّا مَا ظَہَرَ کے الفاظ آئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق پہلی اِلَّا مَا ظَہَرَ سے زینت ظاہرہ کی طرف اشارہ ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ
کی بنائی ہوئی ہوں جیسے چہرہ، ہتھیلی وغیرہ
خواہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہوں جیسے آرائشی اور
جاذب نظر لباس یا برقع۔ اور دوسرے اِلَّا مَا ظَھَرَ سے باطنی زینت مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ
اگر تمام تر کوشش کے باوجود اجنبی پر زینت ظاہرہ یعنی
آرائشی لباس، چہرہ اور ہتھیلیاں کھل جائیں تو معاف ہیں
اور زینت باطنہ کوشش کے باوجود افراد خانہ پر کھل جائیں تو معاف ہیں۔
اِلَّا مَا اَظْھَرْنَ کے بجائے اِلَّا مَا ظَھَرَ کے الفاظ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کا حکم دیا
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق آیت
کا یہی مطلب ہے۔
(۴) وَلَا یَضْرِبْنَ
بِاَرْجُلِھِنَّ لِیَعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنِتِھِنَّ (سورہٴ النور ۳۱) عورتوں کو زمین پر پیر پٹخ کر چلنے کی ممانعت
اس لیے ہے کہ کہیں پازیب کی جھنکارو زینت سے واقف
ہوکر کوئی گرویدہ نہ ہوجائے؛ حالانکہ نقاب میں رہ کر پیر
پٹخنے والی کالی، گوری، جوان ، بوڑھی ، حسین اور
بدصورت کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے۔ اگر پازیب کی
آواز کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک
حسین وجمیل جوان عورت کو سرخی، پاوڈر اور زیب وزینت
کی تمام فتنہ سامانیوں کے ساتھ کھلے چہرہ گھومنے کی اجازت
ہوجائے، نہیں ہرگز نہیں۔
(۵) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ
الّٰتِی ْ لَا یَرْجْونَ نِکَاحاً (سورہٴ النور ۶۰) بوڑھی عورتوں جن کی عمر بالکل ختم ہو اور ان میں
اب کسی کو ترغیب باقی نہ رہی ہو۔ قرآن مجید میں
صرف انہیں کو فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَضَعْنَ
ثِیَابَھُنَّ کے الفاظ سے چہرہ
کھولنے کی اجازت ضرور دی ہے؛ لیکن آگے وَاَنْ یَسْتَعْفِفْنَ
خَیْرٌ لَّھُنَّ
کے ترغیبی الفاظ لاکر ان کو بھی ترغیب دی کہ چہرہ
کو ڈھانکنا تمہارے لیے بہرحال افضل ہے، یہاں اَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ سے پورے یا آدھے کپڑے اتارنا نہ تو مراد ہے نہ عرفاً ایسا
ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نے یہ معنی لیے ہیں، یہاں
اجازت چہرہ کھولنے کی دی جارہی ہے، بوڑھیوں اور صرف بوڑھیوں
کو چہرہ کھولنے کی اجازت کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان سے کم عمر
والیوں کو چہرہ کھولنے کی کسی صورت میں بھی اجازت
نہیں ہے۔
(۶) آیت حجاب کی تفسیر میں قرآن کے بہترین
ماہر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ان الفاظ میں ہے کہ
مسلمان عورت کو جب کسی مجبوری سے باہر نکلنا پڑے تو ان کو جلباب یعنی
بڑی چادریں اپنے سروں پر اس طرح اوڑھ لینا چاہیے کہ
رخسار، گردن، گلا اور سینہ پوری طرح چھپ جائے اور راستہ دیکھنے
کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی ہونی چاہیے۔ اَلضَّرُوْرَةُ تَتَقَدَّرُ
بِقَدْرِھَا صحابی کی
تفسیر حجت ہی نہیں؛ بلکہ بقول بعض علماء مرفوع حدیث کا
درجہ رکھتی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو انصار عورتیں ایسی
تواضع وانکساری سے سروں پر کالی چادریں ڈال کر نکلتی تھیں
گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں جو ذرا سی حرکت سے اڑجائیں
گے۔
احادیث کی
روشنی میں چہرہ کا حجاب:
( ۱) قال النبی صلی اللہ
علیہ وسلم اِذَاخَطبَ اَحَدُکُمْ اِمْرَاَة فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہ
اَنْ یَنْظُرَ اِلَیْھَا (رواہ احمد) جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو
پیغام نکاح دینے کا ارادہ کرے تو اس کو دیکھ لینے میں
کوئی گناہ نہیں ہے۔
اس حدیث میں صرف پیغام
نکاح دینے والوں کو اجنبیہ کو دیکھنے میں گناہ سے مستثنیٰ
کرنے کا مطلب واضح ہے کہ اوروں کو دیکھنے اور دکھانے میں گناہ ہوگا۔
واضح ہو کہ خطبہ (پیغام نکاح) میں صرف چہرہ ہی دیکھا
جاسکتا ہے۔
(۲) بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ جب حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا تو بعض صحابیات نے عرض کیا
کہ ہم میں سے بعض کے پاس جلباب نہیں ہے تو ارشاد نبوی ہوا: لِتُلْبِسھَا اُخْتَھَا مِنْ
جِلْبَابِھَاکہ اپنی
بہنوں کو اپنے جلباب میں کرلیا کرو۔ اس سے بھی عیاں
ہے کہ صحابیات بغیر حجاب کے نہیں نکلتی تھیں۔
(۳) قال النبی صلی اللہ
علیہ وسلم مَنْ جَرَّ ثَوْبَہ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُر اللہُ
اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَقَالَتْ امّ سَلمة رضی
اللہ عنھا کَیْفَ تضع النساء بِذُیُوبِھِنَّ قَال: یُرْخِیْنَہ
شِبْرًا، قالتْ اِذَنْ تَنْکَشِف اَقْدَامُھُنَّ، قال ذِرَاعاً وَلاَ یَزِدْنَ
عَلَیْہِ․
پیروں کو چھپانے کے لیے جو
کہ موقع زینت نہیں ہیں، اگر کپڑے دراز کرنے کا حکم ہے تو کیا
چہرہ کو کھولنے کی اجازت ہوجائے گی۔
نسائی کے علاوہ صحاح ستہ میں
مکاتب سے بھی پردہ کا حکم ہے جو کہ ابھی بھی پورے طور سے اجنبی
نہیں ہوا ہے۔
نیز حالت احرام میں حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کہ جب مردوں کا گزر ہوتا تھا تو
ہم عورتیں اپنے چہروں کو ڈھانک لیتی تھیں؛ حالانکہ حالت
احرام میں کشف وجہ یعنی چہرہ کا کھولنا واجب ہے؛ لیکن ایک
عمومی واجب پر عمل کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے ہی
سہی احرام کے واجب کو ترک کردیتی تھیں، ورنہ اگر چہرہ کا
حجاب عام حالت میں مستحب ہوتا تو استحباب کے لیے صحابیات اور
خاص طور سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ترک واجب نہ کرتیں۔ رواہ
ابوداود) ان پاکیزہ تعلیمات پر ہمیں دل وجان سے عمل کرنا چاہیے
تھا چہ جائے کہ ہم ہی بے حیائی اور بے پردگی کا جواز تلاش
کرنے لگیں۔
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری
بھی دیکھ
اس کے برخلاف غیروں نے ہمیں
آلودہ کرنے اور فحاشی کے دلدل میں کس طرح ڈبونے کی کوششیں
کی ہیں، ذرا ایک نظر ادھر کرلینا مناسب ہوگا۔
اب اسکولوں میں مخلوط تعلیم
اور ایسے یونیفارم کا رواج دیا جارہا ہے کہ جس میں
نصف برہنی کے ساتھ بے حیائی ہے۔ مخلوط تعلیم اور بے
حیائی کے لباس پر اعتراض کرنے والوں کو قدامت پسند اور دقیانوس
کہہ دیا جاتا ہے؛ حالانکہ اسکولوں کی بے حیائی والے ماحول
میں نشوونماپانے کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں
پہنچنے تک مسلم بچیوں کے رنگ وروپ بالکل بے حیائی میں ڈھل
چکے ہوتے ہیں اور حیاسوزی اور فحاشی کے وہ مناظر سامنے
آنے لگتے ہیں کہ انسانیت اور شرم وحیا اپنا سر پیٹ کے رہ
جائیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم کے لیے
کیا مخلوط تعلیم ضروری ہے اور کیا بے حجابی اور نیم
عریانی کے بغیر کوئی لیکچر سمجھ میں نہیں
آئے گا اور کیا کسی مضمون کو سمجھنے کے لیے زیب وزینت
والا چہرہ ضروری ہے اور کیا چھوٹے اور چست لباس کے بغیر کوئی
کتاب سمجھی نہیں جاسکتی۔ اور کیا کلچر کے نام پر
والدین کے سامنے ان کی بیٹیوں کو اسٹیج پر بے حیائی
کے لباس میں ڈانس کروانا اور نچوانا حصول تعلیم کے لیے ضروری
ہے۔یہ سب بے حیائی کے کام اب مسلمان بھی کررہے ہیں
۔ ان احوال میں ہزاروں نہیں؛ بلکہ لاکھوں لوگ ایڈز کی
وجہ سے موت کے منہ میں ہیں تو کونسی تعجب کی بات ہے، نیز
محبت میں ناکامی کی وجہ سے اگر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں
خودکشی کرتے ہیں تو اس میں حیرت ہی کیا اور
اگر اسقاط حمل کی وجہ سے لاکھوں جانیں ضائع جائیں تو یہ
کونسی انہونی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا مذاق
اور فطرت کے خلاف جنگ کا بالکل یہی نتیجہ ہونا چاہیے!
اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے! اور اپنے حکموں پر عمل کرنے کی
توفیق بخشے!(آمین)
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر وہیں پہ غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کے پردہ کا کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
***
----------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 - 8
، جلد: 97 ، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء